اغراضِ
موٴلفین صحاح ستہ
صحاح ستہ کے موٴلفین کی
اغراض تالیف مختلف رہی ہیں:
امام بخاری کی غرض تالیفِ احکام اور
استنباطِ مسائل ہے، بعض مرتبہ استنباط اس قدر دقیق ہوتا ہے کہ وایت
اور ترجمة الباب میں مطابقت کے لیے دقتِ نظری سے کام لینا
پڑتا ہے۔ امام بخاری
بسا اوقات پوری حدیث ایک جگہ نہیں نقل کرتے؛ بلکہ مختلف
مواقع پر اس کے وہی ٹکڑے ذکر کرتے ہیں جس سے وہاں حکم مستنبط ہورہا ہے۔
امام بخاری
کے تراجم آپ کی دقت نظر اور تفقہ کی ترجمانی کرتے ہیں؛ اس
لیے مشہور ہے: فقہ البخاری فی تراجمہ خاتم المحدثین علامہ
محمد انور شاہ کشمیری
آپ کے قائم کردہ تراجم کے سلسلے میں کہتے ہیں:
”سبّاق الغایات وصاحب الاٰیات
في التراجم لم یسبق بہ أحد من المتقدمین ولم یستطع أن یحاکیہ
من المتأخرین فکان ھو فاتح لذلک الباب وصار ھو الخاتم“ (مقدمہ فیض
الباری ۱/۳۵)
ترجمہ: اہداف تک سب سے پہلے پہنچنے والے
اور تراجم قائم کرنے میں عجیب کمالات کے مالک ہیں، نہ تو متقدمین
میں سے کوئی اُن پر سبقت کرسکا اور نہ متاخرین میں سے کوئی
آپ کا نہج اختیار کرسکا، گویا آپ ہی اس دروازے کو واکرنے والے
اور خود ہی اس سلسلے کو ختم کردینے والے ہیں۔
فائدہ: ”فقہ البخاری فی
تراجمہ “ (امام بخاری کی فقہ ان کے تراجم میں ہے)
کے دو مطلب ذکر کیے گئے ہیں: ایک مطلب یہ ہے کہ امام بخاری کا مسلک اور فقہی رجحان ان کے
تراجم سے آشکارا ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ امام بخاری کی دقتِ نظری اور ذکاوت ان
تراجم سے واضح ہوتی ہے۔ یعنی فقہ یاتو اپنے معروف
معنی میں ہے یا ذکاوت اور دقتِ نظری کے معنی میں
ہے؛ چنانچہ مولانا محمد یوسف بنوری فرماتے ہیں:
”فقہ البخاری فی تراجمہ، ولھذا
القول عند شیخنا محملان، الأول أن المسائل التي اختارھا من حیث الفقہ
تظھر من تراجمہ، والثانی أن تفقھہ وذکاء ہ ودقة فکرہ یظھر فی
تراجمہ“ (معارف السنن۱/۲۳)
امام مسلم کا وظیفہ صحیح احادیث
کا جمع کرنا ہے؛ چنانچہ وہ ایک موضوع کی حدیث کو اس کے تمام صحیح
طرق کے ساتھ ایک جگہ مرتب شکل میں جمع کردیتے ہیں،
استنباط سے ان کی کوئی غرض متعلق نہیں، یہی وجہ ہے
کہ اپنی کتاب کے تراجم ابواب بھی انھوں نے خود قائم نہیں کیے؛
بلکہ بعد کے لوگوں نے حواشی میں بڑھائے ہیں۔ ہمارے موجودہ
ہندوستانی نسخے میں قائم کردہ عنوانات امام نووی ہیں۔
امام نسائی کا مقصد زیادہ تر عللِ اسانید
بیان کرنا ہے؛ چنانچہ وہ احادیث کی عللِ خفیّہ پر ”ھٰذا خطأ“ کہہ کر متنبہ کرتے ہیں۔ پھر وہ حدیث لاتے ہیں
جو ان کے نزدیک صحیح ہو، اس کے ساتھ استنباطِ احکام پر بھی ان کی
نظر ہوتی ہے۔
امام ابوداؤد کا وظیفہ مستدلاتِ ائمہ بتلانا ہے؛
اس لیے وہ ان احادیث کو تمام طرق کے ساتھ یکجا ذکر کردیتے
ہیں، جن سے کسی فقیہ نے کسی بھی فقہی مسئلہ
پر استدلال کیا ہو؛ اس لیے وہ امام مسلم کی طرح صحیح احادیث کی
پابندی نہیں کرسکے؛ البتہ ”قال أبوداوٴد“ کے عنوان سے وہ ضعیف
اور مضطرب احادیث پر کلام کرنے کے بھی عادی ہیں۔
امام ترمذی کا مقصد اختلافِ ائمہ کو بتلانا ہے؛ اس لیے
وہ ہر فقیہ کے مستدل کو جداگانہ باب میں ذکر کرکے ان کا اختلاف نقل
کرتے ہیں۔ ہر باب میں عموماً صرف ایک حدیث لاتے ہیں
اور باقی احادیث کی طرف وفی الباب عن فلان وفلان کہہ کر
اشارہ کردیتے ہیں۔
امام ابن ماجہ کا طریقہ امام ابوداؤد کے مشابہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ
اس میں صحیح اور سقیم ہر طرح کی احادیث آگئی
ہیں۔ (دیکھیے: مقدمہ درس ترمذی ۱/۱۲۷)
شیخ الحدیث حضرت مولانا
محمد زکریا رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”ہر حدیث پڑھنے والے کو سب سے
پہلے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ اس حدیث
کے متعلق ائمہ کیا کہتے ہیں اور ان کا مذہب کیاہے؟ یہ بات
ترمذی سے معلوم ہوگی۔ اس کے بعد جب مذہب معلوم ہوگیا تو
اب ضرورت ہے کہ اس کی دلیل معلوم ہو، وہ وظیفہ ابوداؤد کا ہے۔
اس کے بعد اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ مسئلہ کیسے مستنبط
ہوا؟ یہ وظیفہ بخاری
کا ہے کہ وہ استنباطِ مسائل کا طریقہ دکھلاتے ہیں اور بتلاتے ہیں۔
اس کے بعد جب احادیث سے مسائل مستنبط ہوگئے اور دلائل سامنے آگئے تو ان
دلائل کی تقویت کے لیے اسی مضمون کی دوسری حدیث
کی بھی ضرورت ہوتی ہے، یہ کمی امام مسلم پوری کرتے ہیں، اب آدمی
مولوی ہوجاتا ہے۔ اب اس کے بعد اس کو محقق بننے کی ضرورت ہوتی
ہے؛ تاکہ یہ معلوم کرے کہ یہ حدیث جو مستدل بن رہی ہے، اس
کے اندر کوئی علت تو نہیں، اس کا تعلق نسائی سے ہے۔ اس کے
بعد آدمی کو ایک مستقل بصیرت حاصل ہوجاتی ہے، اب اس کو
چاہیے کہ وہ احادیث پر غور کرے اور خود دیکھے کہ اس حدیث
کے اندر کوئی علت تو نہیں؛ کیوں کہ نسائی شریف کے
اندر تو خود امام نسائی
ساتھ دے رہے تھے اور بتلاتے جاتے تھے کہ اس حدیث میں یہ علت ہے؛
لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ بغیر کسی کے مطلع کیے
ہوئے خود احادیث کو پرکھے اور علل کو تلاش کرے، اس کے اندر معین ابن
ماجہ ہے؛ کیوں کہ اس میں احادیث گڈمڈ ہیں اور کسی
کے متعلق یہ نہیں بتلایاگیا ہے کہ اس حدیث کا درجہ
کیا ہے، انہی اغراض کے پیش نظر ہمارے اکابر نے مذکورہ بالا ترتیب
قائم فرمائی تھی“ (سراج القاری، ج۱، مقدمہ الکتاب،ص:۵۳)
شرائط
موٴلفین صحاح ستہ
صحاح ستہ کے موٴلفین نے کہیں
یہ وضاحت نہیں کی ہے کہ ان کے پیشِ نظر کیا شرائط ہیں،
بعد کے محدثین نے ان کی مُصنَّفات اور ذکر کردہ روایات کو دیکھ
کر شرائط کا استنباط کیا ہے۔ علامہ زاہد کوثری فرماتے ہیں:
ہماری معلومات کے مطابق شرائطِ
ائمہ پر سب سے پہلے قلم اٹھانے والے حافظ ابوعبداللہ محمد بن اسحاق بن مندہ (م ۳۹۵ھ) ہیں، جنھوں نے ایک جزء تالیف کیا
اور اس کا نام رکھا ”شروط الأئمة فی القراء ة والسماع والمناولة والاجازة“ (تعلیق
شروط الائمة الخمسة مطبوع مع سنن ابن ماجہ ص ۷۳)
البتہ اس موضوع پر حافظ ابوبکر محمد بن
موسیٰ الحازمی (م ۵۸۴ھ) کی ”شروط
الأئمة الخمسة“ اور حافظ
ابوالفضل ابن طاہر مقدسی کی ”شروط الأئمة الستة“ کلیدی حیثیت رکھتی ہیں،
ان میں بھی اول الذکر کو کئی اعتبار سے ثانی الذکر پر فوقیت
حاصل ہے۔
موٴلفین اصولِ ستہ کی
شرائط کو سمجھنے سے پہلے رواة کے طبقاتِ خامسہ سے واقفیت ضروری ہے؛
چنانچہ علامہ حازمی
فرماتے ہیں: اوصاف کے لحاظ سے رواة پانچ طرح کے ہیں:
(۱) کثیر الضبط والاتقان وکثیر
الملازمة للشیوخ:
جس کا حافظہ اور اتقان بڑا قوی ہو اور مشائخ کی مصاحبتِ طویلہ
اسے نصیب ہو، جیسے یونس بن یزید ایلی،
اور زہری کے شاگرد مالک ابن عیینہ اور ابن ابی حمزہ۔
(۲) کثیر الضبط والاتقان وقلیل
الملازمة: ضبط اور اتقان تو
مضبوط ہوں؛ لیکن شیخ کی زیادہ مصاحبت نصیب نہ ہوئی
ہو۔ جیسے امام ابوعبدالرحمن اوزاعی فقیہ شام، لیث
بن سعد اور ابن ابی ذئب۔
(۳) قلیل الضبط کثیر
الملازمة: مشائخ سے طویل
مصاحبت رہی ہو؛ لیکن حافظہ قوی نہ ہو، جیسے جعفر بن
برقان، اسحاق بن یحییٰ اور سفیان بن حسین۔
(۴) قلیل الضبط قلیل
الملازمة: یعنی
حافظہ بھی کمزور اور مشائخ سے زیادہ ربط بھی نہ ہو، جیسے
ربیعہ بن صلاح اور مثنیٰ بن الصباح۔
(۵) قلیل الضبط وقلیل
الملازمة ہونے کے ساتھ
مطعون بھی ہو، یعنی اس پر وجوہ طعن میں سے کوئی طعن
ہو، جیسے عبدالقدوس شامی۔
امام بخاری رُواة کے طبقاتِ خمسہ میں سے صرف
پہلے طبقہ یعنی قوی الضبط کثیر الملازمة سے روایت لیتے
ہیں اور کبھی تائیداً دوسرے طبقہ سے بھی لے لیتے ہیں۔
امام مسلم پہلے دو طبقوں کو بلا تکلف لاتے ہیں
اور تیسرے طبقے کو بھی تائید کے لیے لے آتے ہیں۔
باقی یعنی چوتھے اور پانچویں درجے کے راوی کو ترک
کردیتے ہیں۔ امام ابوداؤد ابتدائی چاروں طبقات رواة کی
روایت لیتے ہیں اور طبقہٴ خامسہ سے روایت کی
تخریج نہیں کرتے ہیں۔ امام نسائی اول، ثانی اور ثالت کی روایات
لیتے ہیں، جب کہ امام ترمذی اور ابن ماجہ پانچوں قسم کے رواة کی روایات
ذکر کرتے ہیں؛ لہٰذا بخاری کا مرتبہ اول، مسلم کا مرتبہ ثانی،
نسائی کا ثالث، ابوداؤد کا رابع، ترمذی کا خامس اور ابن ماجہ کا سادس
قرار پائے گا۔“
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: ان البخاري یخرج فی
المتابعات من الثانیة، فقلیلاً جدًا من الثالثة تعلیقًا او
ترجمة أیضاً، ومسلم یخرج من الثانیة فی الأصول ومن
الثالثة فی المتابعات، وأصحاب السنن یخرجون من الثالثة أیضاً فی
الأصول، - انتھی ملخصا- (ھدی الساري ۱۲، ۱۳، دارالحدیث القاھرة)
ترجمہ: امام بخاری متابعات میں طبقہٴ ثانیہ
سے روایت لاتے ہیں،اور تعلیق یا ترجمہ کے طور پر شاذ
ونادر طبقہ ثالثہ سے بھی اخذِ روایت کرتے ہیں۔ امام مسلم اصول میں طبقہٴ ثانیہ
اور متابعات میں ثالثہ سے اخذ روایت کرتے ہیں؛ جب کہ اصحابِ سنن
اصول میں بھی طبقہٴ ثالثہ سے روایت کی تخریج
کرتے ہیں۔
ان اربابِ صحاح کی اختیار
کردہ مذکورہ بالا شرطوں کے علاوہ جو عمومی شرطیں ہیں، وہ سب کے یہاں
متفق ہیں۔ مثلاً اسلام، عقل، صدق، عدمِ تدلیس اور عدالت وغیرہ۔
علامہ محمد انور شاہ کشمیری نے شرائط پر گفتگو کرتے ہوئے ایک
اہم نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
”والمراد بھذہ الشروط أنھم لا ینزلون
فی روایة الأحادیث عنھا، فیروون ما ھو أعلی مما
شرطوا، وکثیرا مّا یقال باعتبار کثرة الملازمة وقلتھا، ان فلاناً قوي
في فلان، وان فلاناً ضعیف فی حق فلان وان کان ھو ثقة فی نفسہ، ویرجع
ذلک الی أسباب، فظھر أن الضعف قسمان: ضعف فی نفسہ وضعف فی غیرہ“
(معارف السنن ۱/۲۰)
ترجمہ: شرائط سے مراد یہ ہے کہ
اربابِ صحاح، احادیث کی روایت میں ان سے نیچے نہیں
اترتے، اور اپنی شرط سے اعلیٰ سے اخذِ روایت کرتے ہیں۔
بہت سی مرتبہ کثرتِ ملازمت اور قلت ملازمت کو بنیاد بناکر کہہ دیا
جاتا ہے کہ فلاں، فلاں کے سلسلے میں قوی ہے اور فلاں فلاں کے سلسلے میں
ضعیف ہے۔ اگرچہ وہ فی نفسہ ثقہ ہو اور اس کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ ضعف دو طرح کا ہوتا ہے: ایک وہ ضعف جو خود راوی کی
ذات میں ہوتا ہے اور ایک وہ ضعف جو غیر کی وجہ سے ہوتا ہے۔
صحاح
ستہ کی درجہ وار ترتیب
صحت کے اعتبار سے پہلے نمبر پر صحیح
بخاری ہے۔ اس کے بعد صحیح مسلم کا درجہ ہے۔ جمہور اسی
کے قائل ہیں۔ ابوعلی حسین بن علی نیشاپوری
(م۳۴۹ھ) کے قول ”ما تحت أدیم السماء أصح من کتاب مسلم“ (روئے زمین پر مسلم کی کتاب سے زیادہ صحیح
کوئی کتاب نہیں ہے) کی توجیہ یہ کی گئی
ہے کہ یہ صحیح مسلم کی اصحیت کو مستلزم نہیں؛ کیوں
کہ اس میں مسلم کے مقابلے میں زیادتیِ صحت کی نفی
کی گئی ہے، تو ہوسکتا ہے کہ ان کے نزدیک دونوں کتابیں صحت
میں مساوی درجہ رکھتی ہوں۔ (نزہة النظر، ص۷۰، دارالکتاب)
جہاں تک تعلق ہے امام شافعی کے اس قول کا ”لا أعلم بعد کتاب اللہ عز وجل
أصحّ من موطأ مالک“ تو یہ صحیحین
کے وجود میں آنے سے پہلے کا ہے، جیساکہ حافظ عراقی نے شرح الفیہ
میں ذکر کیاہے۔
اسی طرح بعض مغاربہ مثلاً ابن حزم
(م۴۶۵ھ) سے صحیح بخاری پر صحیح مسلم کی افضلیت
کا جو قول نقل کیاگیا ہے، یا مسلم بن قاسم قرطبی کی
طرف جو یہ قول منسوب ہے ”لم یضع أحد مثل صحیح مسلم“ (تدریب ۱/۹۵)
ان سب کا تعلق حسنِ ترتیب سے ہے؛
کیوں کہ امام مسلم
کی ترتیب بہ نسبت امام بخاری کی ترتیب کے، زیادہ
عمدہ ہے، وہ ایک مضمون کی تمام احادیث کو جملہ طرق کے ساتھ ایک
ہی جگہ ذکر کردیتے ہیں۔ غرضیکہ کسی سے صراحت
کے ساتھ یہ منقول نہیں کہ وہ صحت کے اعتبار سے بخاری پر مسلم کی
تفضیل کے قائل ہوں، اور بالفرض اگر ان حضرات کا مقصد اصحیت کے اعتبار
سے مسلم کی ترجیح ہو تو حافظ ابن حجر عسقلانی کے بہ قول خود شاہد وجود اور حقیقت
حال سے ان کی تردید ہوجاتی ہے؛ کیوں کہ صحت کا مدار تین
امور پر ہے: (۱) اتصال سند (۲) ثقاہت رواة (۳) شذوذ
و علت سے حفاظت۔ اور مذکورہ بالا تینوں امور کے لحاظ سے صحیح
بخاری کو صحیح مسلم پر نمایاں فوقیت حاصل ہے۔ (نزہة
النظر ۷۱-۷۴)
جہاں تک اتصال سند کا تعلق ہے، تو اس
اعتبار سے بخاری اس معنی کر راجح ہے کہ امام بخاری کے نزدیک صحت کے لیے محض
معاصرت اور امکانِ ملاقات کافی نہیں ہے؛ بلکہ راوی کی مروی
عنہ سے ملاقات - خواہ ایک بار سہی - کا ثبوت ضروری ہے؛ جبکہ
امام مسلم امکان ملاقات اور معاصرت کو کافی
سمجھتے ہوئے غیرمدلس کے عنعنہ کواتصال پر محمول کرتے ہیں، اگرچہ راوی
اور مروی عنہ کے درمیان حقیقتاً ملاقات ثابت نہ ہو۔
رواة کی ثقاہت اور ضبط وعدالت کے
لحاظ سے بھی صحیح بخاری راجح ہے؛ چنانچہ بخاری کے متکلم فیہ
رواة کی تعداد، صحیح مسلم کے متکلم فیہ رواة کی تعداد سے
کافی کم ہے۔ تنہا بخاری کے رجال ۴۳۵ ہیں، جن میں متکلم فیہ رجال تقریباً
اسّی ہیں۔ اور جن رواة سے تنہاامام مسلم نے روایت لی ہے، ان کی
تعداد چھ سو بیس (۶۲۰) ہے۔
جن میں متکلم فیہ رُواة کی تعداد ایک سو ساٹھ (۱۶۰) ہے۔ (فتح المغیث ۱/۶۳)
اسی طرح شروطِ ائمہ کے ذیل
میں یہ بات گزر چکی ہے کہ امام بخاری رواة کے طبقہٴ اولیٰ
سے روایت لیتے ہیں؛ جبکہ امام مسلم بلا تکلف طبقہٴ ثانیہ کی
بھی روایت لیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ثالثہ سے بھی
دریغ نہیں کرتے۔
تیسری صفت یعنی
شذوذ وعلت سے محفوظ ہونے کے اعتبار سے بھی بخاری کو فوقیت حاصل
ہے؛ کیوں کہ بخاری ومسلم کی جن احادیث پر تنقید کی
گئی ہے وہ کل دو سو دس (۲۱۰) احادیث ہیں، جن میں سے صرف بخاری کی
اسّی سے بھی کم ہیں (تدریب الراوی ۱/۹۳)
اور بتیس (۳۲) احادیث میں بخاری ومسلم دونوں شریک ہیں۔
باقی جتنی احادیث ہیں وہ تنہا مسلم میں ہیں
(اِمعان النظر:۵۷)
خلاصہ یہ کہ جمہور علماء ومحدثین
کے نزدیک اصحیت کے اعتبار سے پہلا مقام صحیح بخاری کا ہے،
اس کے بعد صحیح مسلم کا درجہ ہے؛ البتہ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے
کہ ابن ملقن کے بہ قول بعض حضرات متاخرین دونوں
میں برابری کے قائل ہیں۔ وہ ایک کی دوسرے پر
فوقیت تسلیم نہیں کرتے، اس طرح صحیحین کے سلسلے میں
یہ تیسرا قول قرار پائے گا۔
”قال ابن
المقلن: رأیت بعض المتأخرین قال: ان الکتابین سواء، فہذا قول
ثالث․ وحکاہ الطوفي في شرح الأربعین،
ومال الیہ القرطبی“ (تدریب الراوی۱/۹۶)
صحیح مسلم کے بعد مرتبہٴ
ثالثہ میں سنن ابوداؤدہے، چوتھا مرتبہ سنن نسائی کا ہے؛ لیکن
علماء کی ایک جماعت نے ان شرائط کو دیکھتے ہوئے جن کا امام نسائی
نے التزام کیاہے۔ نسائی کو ابوداؤد پر فوقیت دی ہے۔
ان چاروں کے بعد جامع ترمذی کا نمبر ہے؛ اس لیے کہ اس کے اندر ضعیف
احادیث بھی ہیں۔ بعض حضرات ترمذی کو مسلم کے بعد تیسرے
نمبر پر رکھتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ترمذی میں
ضعیف احادیث ہیں؛ لیکن وہ احادیث کے ضعف پر تنبیہ
بھی کردیتے ہیں، ان سب کے بعد ابن ماجہ ہے؛ کیوں کہ اس میں
صحت کا وہ اہتمام نہیں جو ائمہ خمسہ کے یہاں ہے۔
مذاہب
ائمہٴ ستہ
امام
بخاری
کا مذہب فقہی:
امام بخاری کے مسلک کے سلسلے میں پانچ اقوال ہیں:
(۱) اکثر حضرات کا خیال ہے کہ امام بخاری مجتہد مطلق ہیں۔ امام بخاری کے قائم کردہ تراجم و ابواب سے بھی
یہی مترشح ہے کہ وہ کسی خاص فقہی مسلک کے پابند نہیں
تھے۔
(۲) تاج الدین سبکی نے ”الطبقات الشافعیہ“ میں،
نواب صدیق حسن خاں قنوجی نے ”ابجدالعلوم“ (۳/۱۲۷) میں اور کئی شافعی محدثین نے امام بخاری کو مسلکاً شافعی قرار دیا ہے۔
لیکن اس رائے پر علامہ محمد انور
شاہ کشمیری
نے سخت نقد کیا ہے۔ (دیکھیے فیض الباری ۱/۵۳، معارف السنن ۱/۲۱)
(۳) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ امام بخاری
مجتہد منتسب الی الامام الشافعی ہیں، یعنی وہ امام
شافعی کے مقلد نہیں؛ بلکہ مجتہد ہیں؛
البتہ ان کا اجتہاد امام شافعی
کے اجتہاد کے موافق ہواکرتا ہے۔ (الانصاف فی بیان سبب
الاختلاف،ص۸۶)
(۴) علامہ قسطلانی
کے بہ قول امام بخاری
ظاہرِ حدیث کے مقلد ہیں۔
(۵) حافظ ابن قیم اور ان ابی یعلیٰ کی
رائے میں امام بخاری حنبلی ہیں۔ (الامام ابن ماجہ و
کتابہ السنن ۱۲۶)
امام
مسلم کا مذہب فقہی:
امام مسلم کے بارے میں بھی مختلف اقول
ہیں:
ایک جماعت کا خیال ہے کہ
امام مسلم شافعی ہیں (دیکھیے:
کشف الظنون ۱/۵۵۵)
حافظ ابن قیم اور ابن ابی یعلی
حنبلی کے بہ قول امام مسلم حنبلی ہیں۔
مولانا عبدالرشید نعمانی نے بعض شواہد کی روشنی میں
امام مسلم کو مالکی مانا ہے (الامام ابن ماجہ:۱۲۴)
علامہ محمد انورشاہ کشمیری فرماتے ہیں: ”وأما مسلم فلا أعلم مذھبہ
بالتحقیق“ (العرف الشذی
۱/۳۳،بیروت) ”یقینی طور پر مجھے امام مسلم
کے مسلک کا علم نہیں۔“
اس کی وجہ بہ ظاہر یہی
ہے کہ امام مسلم
نے اپنی صحیح میں ابواب قائم نہیں کیے، جس سے کہ ان
کے رجحانات کا پتہ چلتا۔
امام ابوداؤد کا مذہب فقہی:
علامہ ابن تیمیہ نے ابوداؤد
کو مجتہد مطلق قرار دیا ہے (مجموع الفتاویٰ:۲۰/۴۰)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی رائے میں ابوداؤد، مجتہد
منتسب الی أحمد واسحاق بن راہویہ، اور تاج الدین سبکی کے مطابق وہ شافعی المسلک ہیں؛
لیکن اکثر حضرات کی رائے یہ ہے کہ ابوداؤد حنبلی ہیں۔
علامہ کشمیری
اور شیخ محمد زکریا کاندھلوی کی بھی یہی رائے
ہے؛ چنانچہ حضرت شیخ فرماتے ہیں:
والذي تحقق لي
أن ابا داوٴد حنبلي بلاریب، لا ینکر ذٰلک من أمعن النظر فی
سننہ․ (مقدمہ لامع الدراری ۱/۹۱)
”میری تحقیق کے مطابق
امام ابوداؤد بلاشبہ حنبلی ہیں اور جو بھی ان کی سنن پر
گہری نگاہ ڈالے گا وہ اس کا انکار نہ کرسکے گا۔“
امام
ترمذی
کا مذہب فقہی:
(۱) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بہ قول، امام ترمذی مجتہد منتسب
الی احمد واسحاق ہیں۔
(۲) علامہ محمد انورشاہ کشمیری نے واضح طور پر انھیں شافعی
قرار دیا ہے؛ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ”وأما الترمذي فھو شافعی
المذھب لم یخالفہ صراحةً الا فی مسئلة الابراد“ (فیض الباری ۱/۵۳) ”امام ترمذی، مسلکاً شافعی ہیں۔ انھوں
نے صرف ابراد بالظہر کے مسئلے میں امام شافعی کی صراحتاً مخالفت کی ہے۔“
امام
نسائی
کا مذہب فقہی:
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے امام ابوعبدالرحمن نسائی کو
شافعی قرار دیا ہے۔ (بستان المحدثین اردو، ص۱۸۹)
نواب صدیق حسن خاں بھوپالی
بھی اسی کے قائل ہیں (الحطة فی ذکر الصحاح الستة ص۲۵۴)
علامہ کشمیری فرماتے ہیں: اگرچہ مشہور یہ
ہے کہ وہ شافعی ہیں؛ لیکن حق بات یہ ہے کہ وہ حنبلی
ہیں۔ ”وأما ابوداوٴد والنسائی فالمشھور أنھما
شافعیان ولکن الحق أنھما حنبلیان“ (العرف الشذی ۱/۳۳)
امام
ابن ماجہ کا مذہب فقہی:
(۱) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بہ قول ابن ماجہ مجتہد منتسب الی
احمد واسحاق ہیں (الانصاف ص۸۶)
(۲) علامہ انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں: ”وأما ابن ماجہ فلعلہ شافعی“ (العرف الشذی ۱/۳۳)
اختلافِ
اقوال کا سبب:
اربابِ صحاح کے فقہی مسالک میں
اختلافِ اقوال کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اپنی تحریروں
میں کہیں یہ صراحت نہیں ہے کہ وہ کسی امام کے مقلد
ہیں یا مجتہد مطلق؛ البتہ ذکر مسائل اور استنباطِ احکام میں ان
حضرات کے رجحانات اور قائم کردہ ابواب کو دیکھ کر مختلف حضرات نے مختلف آراء
قائم کی ہیں۔ اور چوں کہ ارباب صحاح امت کی انتہائی
مقتدر اور اصحابِ فضل وکمال شخصیات ہیں؛ اس لیے مختلف مسالک کے
متبعین نے انھیں اپنے مسلک کا حامی بتانے کی کوشش کی
اور ایک ایک شخصیت کا بیک وقت کئی ائمہ کی
طرف انتساب نقل کردیاگیا؛ چنانچہ تاج سبکی نے امام بخاری کو ”طبقات الشافعیہ“ میں شافعی
قرار دیا۔ ابوداؤد اور نسائی کے سلسلے میں بھی یہی
موقف اختیار کرتے ہوئے انھیں بھی شوافع کی فہرست میں
شامل کرلیا؛ جب کہ حافظ ابن قیم نے ”اعلام الموقعین“ میں
بخاری، مسلم اور ابوداؤد کو حنبلی قرار دیا ہے۔ ابن ابی
یعلی
نے بھی ان تینوں حضرات کو ”طبقات الحنابلہ“ میں اہمیت کے
ساتھ جگہ دی ہے۔ اس طرح ہمیں ان حضرات کے سلسلے میں عجیب
کشاکشی نظر آتی ہے۔
مولانا عبدالرشید نعمانی اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وھذا کلہ عندي تخرّص وتکلم من
غیر برھان، فلو کان أحد من ھٰوٴلاء شافعیا أو حنبلیا
لا طبق العلماء علٰی نقلہ، ولَمَا اختلفوا ھذا الاختلاف، کما قد
أطبقوا علی کون الطحاوي حنفیًّا، والبیھقي شافعیًّا، وعیاضٍ
مالکیًّا، وابن الجوزي حنبلیاً، سوی الامام ابي داود فانہ قد
تفقہ علی الامام أحمد، ومسائلہ عن أحمد بن حنبل معروفة مطبوعة، وذکرہ الشیرازي
في ”طبقات الفقھاء“ من أصحابہ، ولوکان في الأئمة الستة المذکورین أحدٌ شافعیًا
لَصاحَ بہ الحافظان: الذھبی وابن حجر“ (الامام ابن ماجہ وکتابہ السنن ص ۱۲۶)
”میرے نزدیک یہ سب
محض اٹکل اور بے دلیل باتیں ہیں، اگر ان ارباب صحاح میں ایک
بھی شافعی یا حنبلی ہوتے، تو علماء اس کی نقل پر
متفق ہوتے اور اس طرح کا اختلاف بالکل نہیں ہوتا؛ چنانچہ علماء طحاوی
کے حنفی، بیہقی کے شافعی، عیاض کے مالکی اور
ابن الجوزی کے حنبلی ہونے پر متفق ہیں؛ البتہ امام ابوداؤد کا
معاملہ قدرے مختلف ہے، جنھوں نے امام احمد سے فقہ حاصل کی اور امام احمد سے
ابوداؤد نے جو مسائل نقل کیے ہیں، وہ مشہور اور مطبوع ہیں۔
شیرازی
نے بھی اپنے اصحاب کے ”طبقاتِ فقہاء“ میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔
اگر ان مذکوہ ر ائمہ ستہ میں ایک
بھی شافعی ہوتے تو حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر،اس کا خوب زور
وشور سے تذکرہ ضرور کرتے۔“
***
-----------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 4،
جلد: 98 ، جمادی الثانیة 1435 ہجری مطابق اپریل 2014ء